网站标志
当前日期时间
当前时间:
点评详情
发布于:2023-7-1 06:32:47  访问:65 次 回复:0 篇
版主管理 | 推荐 | 删除 | 删除并扣分
موت کا ایڈونچر


گھر سے دفتر جاتے ہوئے ایک بڑے چوک کے قریب پہنچا تو ٹریفک سگنل سرخ ہو گیا، میں رکا تو میرے ساتھ ہی ایک موٹر سائیکل آکر رکی۔ اسے چلانے والا بارہ برس کی عمر کا کمسن بچہ تھا جو اپنی عمر سے مزید چھوٹا نظر آ رہا تھا اس کی وجہ اس کی کمزور صحت تھی۔ جس بچے کو ماں کے دودھ کے علاوہ زندگی بھر کھانے اور پینے کی کوئی شے خالص نہ ملی ہو اس کی صحت کا آپ بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں۔ یوں لگتا تھا جیسے چڑیا کا بوٹ موٹر سائیکل چلا رہا https://jetlucky2.com.br/ur/ ہے۔ اس کے پیچھے اس کی ماں بیٹھی تھی جس کی گود میں ایک دو سالہ بچہ تھا۔ میں نے غور کیا تو مجھے یاد آیا یہ فیملی میرے گھر کے پاس ہی نئی نئی شفٹ ہوئی ہے ان سے رسمی سی علیک سلیک تھی، سرخ سگنل پر گنتی چل رہی تھی جس سے اندازہ ہوا کہ ہمیں دو منٹ یہاں رکنا ہے۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے موٹر سائیکل پر بیٹھی خاتون نے اپنا موبائل فون آن کیا وہ کسی کو بتا رہی تھی کہ میاں صاحب کو تو دکان سے ہی فرصت نہیں ملتی اب تو میں بڑے بیٹے شرجیل کے ساتھ ہی ہر جگہ آتی جاتی ہوں، دوسری طرف سے غالباً پوچھا گیا ہو گا کہ وہ تو بہت چھوٹا ہے موٹر سائیکل کیسے چلا لیتا ہے، خاتون نے جواب دیا۔ ارے نہیں خیر سے وہ تو اپنے ابا سے بھی بہتر ڈرائیونگ کرتا ہے، بیٹا ماں کے منہ سے اپنی تعریف سن کر بہت خوش ہوا اْس نے مسکرا کر پیچھے مڑ کر ماں کی طرف دیکھا۔ اتنے میں سبز بتی روشن ہو گئی شرجیل نے فرط مسرت سے کچھ زیادہ ہی تیزی سے موٹر سائیکل آگے بڑھائی اْس کا اگلا پہیہ ہوا میں بلند ہوا پھر وہ نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ میں نے اْسے بعد ازاں مختلف اوقات میں کبھی اکیلے کبھی دو دوستوں کے ساتھ ایک ہی موٹر سائیکل پر دیکھا جس کی رفتار کار سے زیادہ ہی ہوتی تھی۔ ایک روز وہ ہاتھ چھوڑ کر موٹر سائیکل چلانے کی پریکٹس کرتا نظر آیا کچھ دنوں بعد میں نے اسے مال روڈ پر ایک ریس میں شریک دیکھا، پھر ایک روز وہ موٹرسائیکل چلاتے ہوئے سیل فون آپریٹ کرتا پایا گیا۔ میں اسی شام اس کے گھر گیا، بیل دی تو وہی خاتون گیٹ پر آئیں جو شرجیل کے ساتھ اکثر موٹرسائیکل پر گھومتی، آتی جاتی نظر آتی تھیں۔ انہوں نے مجھے پہچانتے ہوے نہایت ادب سے سلام کیا خیریت پوچھی اور کہنے لگی شاہ جی آج آپ نے آنے کی کیسے زحمت کر لی، میں نے سنجیدگی سے جواب دیا آج واقعی مجھے بہت زحمت ہوئی ہے وہ کچھ حیران ہوئی میں نے ان سے کہا کہ معاملہ تو آپ کا ذاتی ہے لیکن ہم ہمسائے ہیں بس اسی لیے میں کچھ کہنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ خاتون کہنے لگیں آپ اندر تشریف لے آئیں میں نے معذرت کی اور کہا مجھے کہیں اور پہنچنا ہے بس میری گذارش ہے کہ شرجیل کو تنہا یا دوستوں کے ساتھ موٹر سائیکل چلانے کی اجازت نہ دیں بچہ ہے لیکن بچپن کی شرارتیں مہنگی پڑ جاتی ہیں خصوصاً تیز رفتاری تو بہت خطرناک ہے۔ وہ میری بات سمجھ گئیں اور کھلکھلا کر ہنس دیں انہوں نے فرمایا کہ شرجیل کی ڈرائیونگ بہت اچھی ہے وہ بہت پُراعتمار ہے اور سچی بات ہے مجھے تو خود بھی اس کے والد کی طرح روں روں موٹر سائیکل چلانا پسند نہیں۔ اب میرے پاس مزید کچھ کہنے کی گنجائش نہ تھی میں نے اجازت لی اور چلا آیا۔ اس واقعے کے ٹھیک ایک ماہ بعد مجھے شرجیل کے گھر دوبارہ جانے کا موقع ملا، شرجیل کا جنازہ سامنے رکھا تھا وہ ٹریفک ایکسیڈنٹ میں اس دنیا سے اس طرح رخصت ہوا کہ اس کا سر دھڑ سے جدا ہو گیا اور دھڑ بھی تین حصوں میں تقسیم ہو گیا، جنازہ اٹھا تو اس کی ماں کے بین کی آواز میرے کانوں میں آئی، میں لٹ گئی میں برباد ہوگئی۔ میں نے اسے کیوں موٹر سائیکل کی چابی دی۔ یہ تو موت کی چابی تھی۔ ہائے میرا لعل ہائے میرا بیٹا۔ وہ غم سے نڈھال تھی پھر اس کی نظر مجھ پر پڑی۔ وہ کہنے لگی، میرے ہیرے جیسے بیٹے کو جانے کس کی نظر کھا گئی ہائے میں تو برباد ہو گئی۔ واقعہ کے ٹھیک ایک ماہ بعد میں نے دیکھا وہ شرجیل کے چھوٹے بھائی کے ساتھ موٹر سائیکل پر سوار کہیں جا رہی تھی میں نے منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ اخبار میں خبر دیکھی کہ دو سگے بھائی اپنے دو چچا زاد بھائیوں کے ہمراہ گھر سے دریا پر نہانے گئے، وہ اپنے والدین کی اجازت سے گئے انہیں بتا کر گئے، دریا کے کنارے پر ضلعی حکومت نے بورڈ لگا رکھا تھا کہ پانی گہرا ہے دریا میں نہانا منع ہے۔ دس سے پندرہ برس کی عمر کے درمیان بچوں نے یہ عبارت رک کر پڑھی پھر ان سب نے ایک دوسرے کے پیچھے دریا میں چھلانگیں لگا دیں، ان کی چھلانگ موت کے منہ میں تھی پانی نے ان میں سے کسی کو ابھرنے کا موقع نہ دیا۔ چوبیس گھنٹے بعد ان کی لاشیں گھر پہنچیں جہاں ان کے آخری غسل کی تیاری کی جا رہی تھی۔ یونان کے ساحلوں پر ڈوبنے والی کشتی میں سوار چار سو پاکستانیوں میں صرف بارہ زندہ نکالے جا سکے۔ یہ سب لوگ لاکھوں روپے دے کر خوشی خوشی موت خرید کر اپنے گھروں سے رخصت ہوئے۔ یہ رقم انہیں ان کے بہن بھائیوں والدین اور عزیز و اقارب نے اکٹھی کر کے دی۔ یہ سب لوگ ان پڑھ یا کم پڑھے لکھے نوجوان تھے ان میں سے کسی نے بھی یورپ میں جا کر ڈپٹی کمشنر کا عہدہ حاصل نہیں کرنا تھا۔ انہوں نے وہاں صرف مزدوری کرنا تھی۔ یہ لوگ اپنے ملک میں رہ کر بھی مزدوری کر سکتے تھے، جتنا روپیہ انھوں نے غیر قانونی انسانی سمگلروں کو دیا اس روپے سے ملک کے اندر کئی ڈھنگ کے کاروبار کئے جا سکتے تھے۔ وہ خوشحال زندگی گزار سکتے تھے لیکن انھوں نے ایسا کرنا مناسب نہ سمجھا وہ صرف یہ چاہتے تھے کہ کوئی ان کے والدین سے پوچھے کہ آپ کا فلاں بیٹا آج کل کیا کر رہا ہے تو فخر سے سینہ پھلا کر کہیں وہ تو اٹلی ہوتا ہے اور وہاں خوب سیٹ ہے۔ اس ایک خواہش نے ان کے پورے خاندان کو اَپ سیٹ کر دیا۔ آج ہم یونان کی حکومت اور ان کے دیگر اداروں کی شقی القلبی کا ماتم کر رہے ہیں جو ہوا بہت برا ہوا لیکن یہ بھی تو سوچئے ڈوب مرنے والوں کے والدین اور اہل خاندان کا رویہ کیا تھا انہوں نے کیوں ایک غیر قانونی ذریعہ استعمال کرتے ہوئے اپنے جگر گوشوں کو موت کے سفر پر روانہ کیا، وہ بھی تو اپنی ذمہ داری کا احساس کریں۔ سہانے خوابوں کے سفر پر لے جانے والی کشتیاں ڈوبتی رہیں گی، لوگ مرتے رہیں گے ہم ایک کشتی کے ڈوبنے کے بعد دوسری ڈوبنے والی کشتی کے مسافروں کو نیک خواہشات کے ساتھ رخصت کرتے رہیں گے، ہمیں بھی تو اپنے قدم روکنے چاہئیں۔ ایک سیاحتی آبدوز کے لاپتہ ہونے کی خبر آ چکی ہے جس میں ایک سو دس برس قبل ڈوبنے والے جہاز ٹائٹینک کا ملبہ دیکھنے کی خواہش رکھنے والے ارب پتی خاندانوں کے لوگ سوار تھے۔ ان میں بھی پاکستانی تھے، یہ ایڈونچر پر نکلے تھے، بچے امیروں کے ہوں یا غریبوں کے ایڈونچر سب کو پسند ہے۔ کیا ضروری ہے موت کا ایڈونچر ہی کیا جائے۔

共0篇回复 每页10篇 页次:1/1
共0篇回复 每页10篇 页次:1/1
我要回复
回复内容
验 证 码
看不清?更换一张
匿名发表 
会员登录
登录账号:
登录密码:
验 证 码:
您好,您已登录
您有条新到站内短信
会员中心 退出登录
 
 
脚注信息

版权所有 Copyright @ 2009-2011  华纳娱乐平台 智能建站 提供